پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا جسے حذیفہ بن الیمان اور جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے بزرگ مرطبہ اصحاب نے نقل کیا ہے کہ عَلِیٌّ خَیْرُ الْبَشَرِ مَنْ أَبَی فَقَدْ کَفَرَ’’علی (علیہ السلام) سب سے افضل بشر ہیں، جس نے بھی اس بات کا انکار کیا اس نے یقیناً کفر اختیار کیا ہے۔‘‘ [تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج ۴۲، ص ۳۷۲-۳۷۴]
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جو بھی امام علی (علیہ السلام) کو لوگوں میں سب سے افضل نہ سمجھے وہ دین اسلام کے دائرہ سے باہر ہے۔ اسی کے بر عکس، امام علی (علیہ السلام) سے بغض رکھنے والے اور انہیں شہید کرنے والےدنیا کے شقی ترین افراد ہیں اور اس کی دلیل بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حدیث ہے۔جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امام علی (علیہ السلام) سے ارشاد فرمایا: ’’اولین اور آخرین میں سے شقی ترین شخص کون ہے؟علی (علیہ السلام) نے فرمایا، ’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘ پس حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جواب میں فرمایا، ’تمہارا قاتل، اے علی!‘‘ [مناقب ابن مغازلی شافعی، ص ۲۷۷، ح ۲۴۵]
۱۹؍ماہ رمضان، ۴۰ ہجری وہ غمناک تاریخ تھی جب دنیا کے شقی ترین شخص ابن مُلجم المُرادی نے مسجد کوفہ میں دنیا کے سب سے افضل شخص امیر المومنین امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے سر اقدس پر ایک زہر آلود تلوار سے ضربت لگائی جب آپ نماز میں حالت سجدہ میں تھے۔آپ کو آپ کے بیٹے امام حسن و حسین (علیہما السلام) نے چند اصحاب کے ساتھ ایک گلیم میں رکھ کر آپ کے بیت الشرف لایا۔ تین دن تک آپ اس زہر اور ضرب کے کرب و تکلیف میں رہے اور بالآخر اسی ضربت کےسبب ۲۱؍ ماہ رمضان ۴۰ہجری کو آپ کی شہادت واقع ہوئی اور مشکل کشائے دنیا نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ہم تمام عالم اسلام کی خدمت میں اس پر سوز تاریخ کی مناسبت سے تعزیت پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ مولا علی (علیہ السلام) کے قاتل اور آپ کے قتل کی سازش میں شامل تمام لوگوں پر ابدی عذاب نازل کرے۔
آمین یا رب العالمین!