آپﷺنے اپنی حیاتِ مبارکہ میں امام علی کو بارہا اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا
پیغمبر اکرمﷺ نے متعدد مواقع پر اپنے جانشین، وصی، اور اپنے بعد اپنے بلا فصل خلیفہ کا اعلان کیا تھا۔ آنحضرتﷺ کے اقوال و افعال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کے بعد امام علی ہی اس امت میں آپ کے خلیفہ و جانشین ہیں۔ فریقین کے اکابر علماء نے اپنی مشہور کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ کبھی شبِ ہجرت اپنے بستر پر امام علیکو سلا کر، کبھی مختلف غزوات میں انہیں عَلَمبر دار بنا کر، کبھی آسمان سے اترے ہوئے پرندہ کو اُن کے ساتھ تناول فرما کر ، کھبی ان کے حق میں حدیث منزلت میں اپنے اور ان کے درمیان حضرت موسیٰ اور ہارون جیسی منزلت کو بیان فرما کر، کبھی نصاریٰ نجران کے خلاف مباہلہ کے وقت انہیں اپنا نفس و جان بتا کر تو کبھی ۱۸؍ ذی الحج، ۱۰ہجری کو اپنے آخری حج میں میدان غدیر خم میں انہیں تمام مومنین و مومنات کا مولا بنا کر۔ اختصار کے مد نظر، صرف پہلے اور آخری اعلان پر ایک نگاہ کرتے ہیں۔ دلیل کے طور پر یہاں حوالہ بھی پیش کیاگیا ہے اور اصل کتاب کا وہ صفحہ بھی ہے جسے قارئین ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
پہلا اعلان خلافت – دعوت ذوالعشیرہ : یہ واقعہ حدیث یوم الدار یا دعوت ذو العشیرہ کے نام سے معروف ہے۔اس واقعہ کے راوی ابن عباس ہیں جنہوں نے امام علی بن ابی طالب کے حوالہ سے اسے نقل فرمایا ہے۔ جب سورۂ شوریٰ (۲۶) کی آیت ۲۱۴؍
وَ أَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ
’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو آگاہ کرو۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی کریمﷺ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی اور اپنے رسالت کے مشن کی ابتداء کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’کون ہے جو اس امر میں میرا وزیر بنےگا؟‘‘ تو صرف امام علی نے آگے بڑھ کر آپ کی نصرت کا وعدہ کیا۔ پس نبی اکرمﷺنے ارشاد فرمایا:
اِنَّ ھٰذَا اَخِیْ وَ وَصِیِّیْ وَ خَلِیْفَتِیْ فِیْکُمْ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَ اَطِیْعُوْا
’’بیشک یہی میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے۔ پس اس کی بات غور سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘ [تاریخ طبری، ج ۲، ص۳۱۹-۳۲۱]
آخری اعلان خلافت–غدیر خم: زید بن ارقم سے روایت ہے کہ جب حجۃ الوداع سے لوٹتے وقت حضرت رسول اللہﷺمقام غدیر خم پر پہنچے تو انہوں نے وہاں تمام حاجیوں کو اپنے عنقریب دنیا کو الوداع کہنے کی خبر دی اور وصیت کے طور پر مسلمانوں کو ثقلین یعنی قرآن مجید اور ان کے اہل بیت سے متمسک رہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں۔‘‘ پھرآپ نے امام علی کا ہاتھ تھام کر ارشاد فرمایا
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ
’جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ مولا ہیں۔‘ [فضائل الصحابہ، امام نسائی، ص ۱۵]
لہٰذا، صاحبان تحقیق و تفہیم کے لئے یہ بات کبھی بھی مشکوک نہیں تھی اور انہیں اس بات کا یقین تھا اور آج بھی ہے کہ اللہ رب العالمین نے عالمین کے لئے جس نبی کو رحمت بنا کر بھیجا، جس نے اپنی تمام زندگی انسانیت کو حقیقی راہِ ہدایت دکھانے میں مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ایک مکمل دین اسلام پہنچایا، وہ کبھی بھی اپنی امت کو اپنے بعد اپنے جانشین ، وصی اور خلیفہ کے بغیر تنہا اور گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ رسولﷺ کے بلافصل جانشین اور خلیفہ کے طور پر غدیر خم میں ہوئی امام علی کی اس تاج پوشی کی ہم اپنے زمانہ کے امام، حضرت امام مہدی (عج) کی خدمت میں اور تمام مسلمانوں کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں !